Posts

Showing posts from September, 2018

اسد امانت علی خان

Image
اسد امانت علی خان موسیقی کی ایک محفل اپنے عروج پر تھی، گائیک سُر اور تال کے تھان کھول کھول کر لپیٹ رہا تھا۔ سنگت میں طبلے والا بھی پوری طرح شریک تھا، کافی دیر تک سُر اور تال ایک دوسرے سے جگل بندی کرتے رہے، خیال اور طبلہ ایک دوسرے سے دوبدو رہے، لیکن گائیک نہیں جانتا تھا، یہ محفل اس کی زندگی کی آخری چند محفلوں میں سے ایک ہے۔ جگل بندی کے اس فنی مکالمے میں گائیکی نے موسیقی کے اعلیٰ ترین درجے کو چھولیا، توصیف کا شور تھما اور شاندار محفل تمام ہوئی تو اس فنکار کا عہد بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اپنے فن کے عروج پر پہنچ کر رخصت ہونے والے اس گائیک کا نام ’اسد امانت علی خان‘ تھا جبکہ جگل بندی میں ان کا ساتھ دینے والے طبلہ نواز محمود علی ہیں۔ یہ ایک نجی ٹیلی وژن سے براہِ راست نشر ہونے والی محفلِ موسیقی تھی، جس میں دونوں فنکاروں نے اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ ایک جو گائیک تھا، اس کو دنیا جانتی ہے، دوسرا طبلہ نواز ہے، جس سے اکثریت ناواقف ہے، لیکن دونوں کو اپنے فن میں یکساں مہارت رہی۔ اسد امانت علی خان اپنے فن کے عروج پر پہنچ کر رخصت ہونے والے اس گائیک کا نام ’اسد امانت علی خان‘ تھا

ناریل

Image
ناریل (کھوپرا گیری) دانوں سے چبا کر منہ میں ہی رکھ کر سو جائیں انشاء اللہ صبح واضح فرق ہو گا۔ ناریل کے درخت کو سنسکرت میں 'کلپا ورکشا' کہتے ہیں جس کا مطلب ایسا درخت جو زندگی کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ یہ نام کافی حد تک درست ہے کیوں کہ ناریل کے درخت اور اس سے بننے والی چیزوں کا مختلف انداز میں استعمال ہوتا ہے اور صحت کے حوالے سے اس سے مندرجہ ذیل فوائد ملتے ہیں۔ خشک جلد کا علاج ویٹامن ای سے مالامال کھوپرے کا تیل چہرے پر لگانے سے جلد کی لچک بحال ہوجاتی ہے اور جھرریاں نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ ناریل کے پانی میں چند قطرے لیموں ملاکر اس کا ماسک لگانے سے جلد خشک ہونے کا مسئلہ دور ہوجائے گا۔ بالوں میں چمک لانے اور ڈینڈرف ختم کرنے میں مددگار رات کو سر پر گرم کھوپرے کے تیل کا مساج ڈینڈرف کم کرنے اور بالوں کے گرنے کو روکنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ناریل کے دودھ کو سر پر لگانے سے ہیئر اسٹریٹننگ کے دوران بالوں کو ہونے والے نقصان کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ انہی فوائد کے باعث ناریل کا دودھ نامور ہیئر پراجکٹس کا جزو ہے۔ درد کم اور ریلیکس کرتا ہے کھوپرے کے تیل کو مساج کے د

کیکر

Image
 اسے  ببول  اور  مغیلاں  بھی کہتے ہیں  یہ درخت چھال دار ہوتے ہیں اور جب یہ چھال اُتاری جاتی ہے تو اس سے رس دار کیمائی مادّہ نکلتا ہے۔ اس درخت کی ایک تاریخ ہے اور انکی زیادہ تر انواع دوا سازی اور مختلف اشیاء کو محفوظ رکھنے میں استعمال ہوتی ہیں۔   پوشیدہ امراض‘کیکر کی کومل پھلیاں جن میں ابھی بیج نہ پڑا ہواتار کر سائے میں   خشک کی جاتی ہیں پھر انہیں ہم وزن شکر میں سفوف بنا کر ملا دیا جاتا ہے اس دوا کو چھ گرام مقدار میں روزانہ صبح دودھ کے ساتھ لیا جائے تو چند دن میں مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ببول(کیکر) کا درخت سولہ میٹر تک لمبا ہوتا ہے اس کی چھال سیاہی مائل خاکستری اور پھول زرد رنگ کے ہوتے ہیں شاخوں پر کانٹے پائے جاتے ہیں ‘ درخت کے تنے سے ایک لعاب دار مادہ رستا ہے جسے گوند کہتے ہیں ۔شفا بخش اجزاء :۔ کیکر کے پتے چھال ٗ پھلی اور گوند سبھی میں طبی افادیت پائی جاتی ہے پتے اور چھال رطوبتوں کو خشک کرنے اور رستے ہوئے خون کو روکنے میں مفید ہے پھلی سانس کی نالیوں سے بلغی مواد اور ریشہ خارج کرنے میں معاون ہے گوند جلد کی حدت اور سوزش دور کرنے میں سود مند ہے کیکر کی گوند کا لعاب دیگر

Study in Pakistan

Image
Credit: emag  

Pineapple

Image
While the  pineapple  is not native to Hawaii, the delightful fruit has become synonymous with the culture and cuisine of the island chain. Known as “halakahiki” in Hawaiian, the fruit is considered a symbol of welcome and friendship. The pineapple is a tropical plant, indigenous to Souoth America where it soon spread to the West Indies and was eventually introduced in 1493 to European explorers, such as Christopher Columbus, who brought it back to Europe. An Introduction to the History of Pineapple  How Did the Pineapple : throughout much of civilization after its arrival in Europe where it was cherished as a symbol of royalty. It’s not known exactly when the pineapple was first grown on the Hawaii islands, but historians believe it was likely around the year 1770. An English horticulturist named Captain John Kidwell, first began commercial canned production of the pineapple in 1892. The canning production closed in 1898 because of high tariffs placed on imported fruits

کیا آج تک پرفیوم کو غلط طریقے سے لگاتے رہے ہیں؟

Image
رفیوم استعمال کرنے کا شوق کس کو نہیں ہوتا اور موسم چاہے خود کو مہکانا ہر ایک کو اچھا لگتا ہے۔ تاہم بیشتر افراد خوشبویات کے استعمال کے حوالے سے زیادہ واقف نہیں ہوتے اور اس وجہ سے مہنگے سے مہنگے پرفیوم کی مہک بھی بہت جلد اڑ جاتی ہے۔ درحقیقت مرد و خواتین کسی پرفیوم کو لگاتے ہوئے چند بڑی غلطیاں کرتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ مہنگے پرفیومز بھی بے اثر محسوس ہوتے ہیں، جس سے ذہنی جھنجھلاہٹ کے ساتھ پیسے بھی ضائع ہوتے ہیں۔ تو جان لیں کہ کہیں آپ بھی تو یہ غلطیاں تو نہیں کررہے۔ کپڑوں پر اسپرے کرنا پرفیوم کو براہ راست کپڑوں پر اسپرے کرنا سب سے بڑی غلطی ہے، اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو جان لیں کہ اس کے نتیجے میں خوشبو زیادہ دیر برقرار نہیں رہتی جبکہ لباس پر نشان الگ بن جاتے ہیں جو کافی بدنما محسوس ہوتے ہیں۔ پرفیوم سے جلد کو گیلا کرنا اکثر لوگ اتنے قریب سے پرفیوم کو اسپرے کرتے ہیں، جس سے جلد گیلی ہوجاتی ہے، جو کہ غلط طریقہ ہے۔ پرفیوم کی بوتل اور جسم کے درمیان 5 سے 7 سینٹی میٹر کا فاصلہ ہونا چاہئے، تاہم بہت زیادہ دور کرنے سے بھی آپ بہت زیادہ پرفیوم ضائع کردیں گے۔ بہت زیادہ اسپرے کرنا

ماہ محرم کی عظمت

Image
ماہ محرم کی عظمت ترميم قرآن اور محرم ترميم یقینا محرم الحرام کا مہینا عظمت والا اوربابرکت مہینا ہے، اسی ماہ مبارک سے ہجری قمری سال کی ابتدا ہوتی ہے اوریہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے : ” یقینا اللہ تعالٰی کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے اور (یہ تعداد) اسی دن سے قائم ہے جب سے آسمان وزمین کو اللہ نے پیدا فرمایا تھا، ان میں سے چارحرمت و ادب والے مہینے ہیں،یہی درست اورصحیح دین ہے، تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پرظلم وستم نہ کرو ، اورتم تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں ، اور معلوم رہے کہ اللہ تعالٰی متقیوں کے ساتھ ہے۔  [1] “ اور ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ” سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چارحرمت والے ہیں ، تین تومسلسل ہیں ، ذوالقعدہ  ،  ذوالحجۃ  ، اورمحرم ، اورجمادی اور شعبان  کے مابین  رجب کامہینا جسے رجب مضرکہا جاتا ہے “ [2] اسلامی سال یعنی قمری سال یا ہجری سال کا پہلا مہینا محرّم الحرام بابرکت اور مقدس مہینا ہے محرم کو محرم اس لیے بھی کہا جا

کربلا کے شہید صحابہ کرام

کربلا کے شہید صحابہ کرام اصحاب  سید الشہداء  میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے کئی  صحابہ  بھی تھے:  فضیل بن زبیر  کے مطابق  امام حسین کے رکاب میں شہادت پانے والے افراد میں صحابہ   رسول اکرم  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعداد 6، [241]  اور مسعودی کے بقول 4 تھی [242]  اور یہ افراد  امام حسین  کے اصحاب و انصار میں سے تھے اور  عاشورہ کے دن  کربلا  میں شہید ہوئے۔ بعض معاصر مؤرخین و محققین نے  صحابہ  کی تعداد 5 بیان کی ہے: [243]  یعنی: خود امام حسین  اور امام کے علاوہ 5 صحابہ کرام انس بن حارث کاہلی ، [244] [245] [246] [247] حبیب بن مظاہر اسدی ، [248] مسلم بن عوسجہ اسدی ، [249] ہانی بن عروہ مرادی ، [250] [251] [252] عبد اللہ بن يقطر حمیری [253]  جو  امام حسین  کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ [254] Credit: Wikipedia